سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم پی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے سندھ حکومت سے کہا کہ اختیارات کی منتقلی اور بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنایا جائے
عدالتی فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں کا کیس یہ ہے کہ آرٹیکل 140 اے کے تحت صوبے میں مکمل تھرڈٹیئرحکو مت ہونی چاہیے
جسے اختیارات منتقل ہو جبکہ سندھ حکومت نے اپنے اختیارات کی منتقلی کا کا انکار کرتے ہوئےعوام کے حقوق کے خلاف ورزی کی ہے۔
جن کے تحفظ آئین کے آرٹیکل ٹو اے قرار دار مقاصد اور آرٹیکل 4 عدالتی فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں کا موقف بلدیاتی حکومت پالیسی معاملات میں فیصلہ سازی کرنے کی ذمہ دار ہےجس کا براہ راست اثر شہریوں کی زندگی پر ہوتا ہے۔چاہے وہ صحت کے معاملات ہوں آرٹ کلچر ہومقامی ٹرانسپورٹ ہویا پانی اور توانائی کے معاملات ہوں علاقائی منصوبہ بندی ہو ہوتعلیم اور سوشل سروس ہویا لائن آرڈر کو بہتر بنانا ہودرخواست گزاروں کا موقف ہے کہ سندھ حکومت نےلوٹ مار کی حکمرانی کو بالکل آزاد چھوڑا ہےاور ظاہری طور پر سندھ کے شہری علاقوں میں کوئی خرچہ نہیں کر رہی اور جو فنڈ دیہی علاقوں کے لیے مختص کیے ہیں وہ بھی ہڑپ کر گئی ہےشہری علاقوں سے متعلق بالخصوص کراچی اور دیہی علاقوں سے متعلق لاڑکانہ اور گھوٹکی کی مثالیں دیں اور بتایا گیا ہے کہ کیسے کچرے کا ڈھیر سیوریج کا مسئلہ اور صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کوئی اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ پانی آلودہ ہے صوبہ سندھ میں غیر صحت بخش زندگی ہے۔ چکن گنیا سمیت کئی بیماریوں کی وبا ہےمیونسپل سہولیات موجود نہیں ہے محکمہ صحت اور اسپتالوں کی حالت بری ہےدوا موجود نہیں ہےاور نوکریاں میرٹ پر دینے کے بجائے فروخت کی جاتی ہےزیادہ تر سکول میں گھوسٹ ٹیچر ہیں اسکول کے احاطوں کو جانوروں کی رکھوالی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 2008 سے لے کراب تک حکومت سندھ نےاینیول ڈیولپمنٹ پروگرام کے لئے بارہ سو ۔ستائیس1227 ارب روپے مختص کیے لیکن سندھ کے شہری علاقوں اور دیہی علاقوں پر خرچ نہیں کیا گیا۔
درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ آرٹیکل 140 کے مطابق جو بلدیاتی حکومت ہے اسے سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات کی منتقلی کے ساتھ کام کرنے دیا گیاتو عوامی مشکلات اور عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا معاملے میں کوئی حل نکال سکتا ہے۔
درخواست میں جو الزامات عائد کیے گئےاس کو غلط ثابت کرنے کے لیے سندھ حکومت کی طرف سےکوئی جواب جمع نہیں کرایا گیاجس کے بعد عدالت نے واضح کیاکہ وہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت اس درخواست کو سن سکتے ہیں یہ کیس آرٹیکل 140 اے کے تحت گھومتا ہےجس کے مطابق ہر صوبہ قانون کے تحت ایک بلدیاتی حکومت قائم کرے گااور اس حکومت کے منتخب نمائندوں کو سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات منتقل کرے گااور اس حکومت کے انتخابات الیکشن کمیشن کرانے کا پابند ہوگا۔
اس آرٹیکل کے مخالف لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 متعارف کرایا جاسکے تحت جو قانون بنا ہے اس میں تمام اختیارات سندھ حکومت کے پاس چلے جاتے ہیں
سپریم کورٹ نے منگل کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (MQM-P) کی جانب سے سندھ میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے اور خودمختاری کے لیے دائر درخواست پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سندھ حکومت کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات مقامی اداروں کو منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
حکومت جیسا کہ آئین کے تحت درج ہے۔ سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کی درخواست پر 26 اکتوبر 2020 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اس وقت کی ایم کیو ایم، اب ایم کیو ایم-پی نے اکتوبر 2013 میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (SLGA) 2013 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ SLGA-2013 کو ایم کیو ایم کی شدید مخالفت کے درمیان 19 اگست کو سندھ اسمبلی نے قانون کی شکل دی تھی۔
آج کے فیصلے میں، چیف جسٹس گلزار احمد نے نوٹ کیا کہ مقامی حکومتیں آئین کے آرٹیکل 140-A کے تحت بنتی ہیں، جو صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں "بااختیار" مقامی حکومتیں قائم کریں۔
0 Comments